"مولانا یاد تو آتے ہوں گے"
تحریر: محمد سمیع سواتی
مولانا فضل الرحمان واحد سیاستدان رہے جو آخری گیند تک کھیلتے رہے ، عمران خان تو پچ اکھاڑ کر وکٹیں بھی ساتھ لے گئے ، ویسے عمران خان کو اپنے سیاہ دور کے تلخ تجربہ حکمرانی میں ہرطرف سے رعب اور دبدبے کیساتھ للکارتے ، اس کی اوقات یاد دلاتے مولانا فضل الرحمان بھی کمال دل گردہ اور کلیجہ رکھتے ہیں، ایک لمحے کیلئے ڈرے نہیں ، بکے نہیں اور نہ ہی پیچھے ہٹے ، ویسے مولانا صاحب عمران خان کو خوب یاد آئیں گے، مولانا نے روز اول سے ہی مسٹر خان کا تعاقب کرکے اسے غیر سیاسی عنصر اور مغرب کا دلدادہ قرار دیا تھا ۔
وہ خان جس کے سیاہ دور میں وطن عزیز پر سنگین خطرات کے بادل منڈلاتے رہے، جس نے اداروں کو بےتوقیر کیا ، قومی بینک آئی ایم ایف کو بیچ ڈالا ، سی پیک روندا جاچکا ، معیشت کا پھٹہ بٹھایا جاچکا ، مہنگائی آسمان سے باتیں کرتی رہی ، بےروزگاری عروج پر رہی، غریبوں کے گھر گرتے رہے اور بنی گالہ ریگولرائزڈ ہوا ، ہزاروں مساجد شہید ہوئیں، بچاؤ کیلئے کوئی قانون بنانے کی زحمت نہ ہوئی، چینی ، فیول ، ایل این جی اور آٹے چوروں کو مراعات ملتی رہیں سیاسی بنیادوں پر سینکڑوں اراکین قیدوبند کی صعوبتیں برداشت کرتے رہے ۔
البتہ عمران خان کے اراکین امیر سے امیر تر ہوتے رہے شرطیہ دورہ کرلیں ابھی اپنے اپنے حلقوں سے سلیکٹ شدہ پی ٹی آئی اراکین کا طرز زندگی چیک کریں ، ان کو منتخب ہوئے صرف چار سال ہوئے تھے الیکشن سے قبل اور آج کے حالات کا تقابلی جائزہ لیں پی ٹی آئی ایم این ایز اور ایم پی ایز کی جائدادیں چیک کرلیں آپ کی آنکھیں کھل جائیں گی ۔
مولانا پر کئی بار قاتلانہ حملے ہوئے مگر عمران خان سیکیورٹی چھین کر ٹارچر کیا ، اپنے لکڑ بھگوں کی رجیم سے مسلسل میڈیا ٹرائل کرواتے رہے ، کمینے پن کی انتہا دیکھئے کہ حکمران ہونے اور طاقت رکھنے کے باوجود عوامی اجتماعات میں ڈیزل کے نعرے لگوائے مگر عملاً کسی الزام کو ثابت کرنے کی جرأت تک نہ کرسکے۔
اگر مولانا فضل الرحمن کے دامن پر ذرا برابر بھی کوئی داغ ہوتا تو یہ کبھی معاف نہیں کرتے لیکن اجلے کردار کے مالک مولانا فضل الرحمن کیلئے وقت کا بااختیار وزیراعظم بھی گالیوں کا طوق لیتا پھرتا رہا ، یہی ہماری جیت ہے ۔
لیکن مولانا فضل الرحمان نے عمران خان کی گالیوں کا جواب گالی سے نہیں، نہ ہی دیس چھوڑا بلکہ مردانہ وار مقابلہ کیا اور عمران خان کے سینے پر آخری وقت مونگ دلتے رہے ۔
یہاں تک اپنے اقتدار کو دوام دینے اور بچاؤ کیلئے خان صاحب کو مذہبی چغہ بھی اوڑھنا پڑا ، چند درباریوں کو رام کرکے انہیں مذہبی لبادہ اوڑھا کر " بغل میں چھری منہ پر رام کے مصداق ریاست مدینہ کی رٹ بھی لگانی پڑی لیکن شومئے قسمت کہ بدنیتی کے بنیاد پر امر بالعروف کے عنوان سے ہونے والے آخری عوامی جلسے میں تلاوت کیلئے کوئی میسر نہ آیا۔
دنیا جانتی ہے کہ اس سیاہ دور میں بےحیائی کلچر کتنا پروان چڑھا کہ پارلیمنٹ لارجز تک طوائف پہنچ چکی تھیں ، ان طوائفوں کے ذریعے شرفا کی دستاریں اچھالی گئیں ، اب تو آہستہ آہستہ تبدیلی کےکٹے کا منہ کھلے گا تو معلوم ہوگا کہ سمندر پار سے لائے گئے دودرجن وزیروں مشیروں کی کھیپ نے ملک کا کتنا دیوالیہ نکالا ہے ۔
گندگی اور غلاظت تھی جس پر جتنا کافور چھڑکا گیا جتنے کور چڑھائے مگر آخر تک تعفن اٹھتا ہی رہا ،
الحمدللہ رمضان کی بابرکت میں ہی خلاصی ہوچکی ہے ۔اور فرار کا آخری راستہ وہ اختیار کیا کہ دنیا یاد رکھے گی اس ایوان کا سامنا کرنے کی جرأت تک نہ کرسکا جس کے بل بوتے پر قوم کو دھوکہ دیتا رہا ۔
جمعیت علماء اسلام کی قیادت کیساتھ ان کے ورکرز بھی سرخرو ہوئے ہیں اور اب مولانا فضل الرحمان کی قیادت میں جمہور علماء کی جماعت علمائے اسلام کے ورکرز اپنی جدوجہد کو اسی منج پر جاری رکھتے ہوئے وطن عزیز میں درپردہ مغربی نظریات کا پرچار کرنے والےقوتوں اور ان کے آلہ کاروں کا راستہ روکتے رہیں گے۔
آخر میں شاہ سے زیادہ شاہ کے وفادار مذہبی یوتھیوں کو بے آسرا ہونے پر دلی تسلی کا اظہار کئے دیتے ہیں کہ کبھی بھی پیٹھ میں چھرا نہیں گھونپنا چاہئے، اپنے قبیلے میں دستار سلامت رہتی ہے لوٹ کر آئیے تبدیلی کا زہر آلو نہ سہی پرانے پاکستان پر گزر بسر کیجئے آپ کی پیٹھ پر لگی مہر کی معیاد مکمل ہوچکی ہے ۔
اور جاتے جاتے یاد رکھئے کہ مولانا فضل الرحمن کی سیاسی زندگی کی پاک دامنی شفافیت، صادق و امین لیڈر ہونے کیلئے یہ سیاہ دور ہی کافی ہے جب پی ٹی آئی کی دنیا بھرسے پیڈ سوشل میڈیا رجیم مسٹر خان کی ایماء پر مولانا کا تمسخر اڑاکر کردار کشی تو کرتی رہی لیکن پی ٹی آئی حکومت کو عملاً مولانا فضل الرحمان کا بال بھی بیکا کرنے کی جرأت نہ ہوسکی ۔
جن کا دعویٰ ہے بیابانوں کو بسایا ہم نے
ان سے پوچھو اجاڑے ہیں گلستاں کتنے
#سمیع_سواتی