https://www.youtube.com/channel/UCo4Jt9KlQQ76WNCYvqeymjA

اپوزیشن تحریک کے سرخیل

                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                    اپوزیشن تحریک کے سرخیل 


تمام دوستوں سے مودبانہ گزارش 
پاکستانی فوج کسی ایک فرد واحد کا نام نہیں۔ہر خاندان سے کوئی نہ کوئی فوج میں اپنے فرائض سر انجام دے رہا ہیے  پاکستانی فوج ہمارا مان ہیے۔پلیز کوئی ایسا قدم مت اٹھاو جس سے ہمارے دشمن خوش ہوں۔پاکستانی فوج کے خلاف کوئی بھی پروپیگنڈا ایک دشمن کا تو ہو سکتا ہیے پر کسی محب پاکستانی کا نہیں ہو سکتا۔ہم اپنی فوج کے ساتھ ہمیشہ شانہ بشانہ کھڑے تھے۔ہیں۔اور ہمیشہ رہیں گیں۔پاک فوج زندہ باد۔پاکستان پائندہ باد



اپوزیشن تحریک کے سرخیل۔۔ عمرفاروق /آگہی یہ مولاناہی تھے جنھوں نے سونامی کے آگے بندھ باندھا، صرف بندھ ہی نہیں باندھابلکہ اس سے ٹکراگئے اورایسے ٹکرائے کہ سونامی کو واپس کرکے ہی چھوڑا۔سیاست کے بڑے بڑے کھلاڑی جب شکست تسلیم کرکے ڈھیرہوگئے تومولانانے شکست تسلیم کرنے سے انکارکرتے ہوئے اناالحق کانعرہ بلندکیا۔ ایسے وقت میں مولانانے یہ نعرہ مستانہ بلندکیاتھا کہ جب تبدیلی کاخمارتازہ تازہ تھا تبدیلی کے خلاف بات کرنے پرلوگ منہ موڑلیتے تھے،طعنے دیتے تھے ،سٹیبلشمنٹ ،صحافی ،عالمی طاقتیں ،دوست ممالک سبھی عمران نیازی کے آگے بچھے جارہے تھے،عمران خان کے نازونخرے اٹھارہے تھے حیران کن منظریہ تھا کہ سعودی سفیرایک دن میں دودومرتبہ بنی گالہ کی یاتراکررہاتھا تکبروغرور کاپہاڑبنی گالہ کے پہاڑپربراجمان تھا ۔اپوزیشن جماعتیں سہمی ہوئی تھیں ن لیگ ،پیپلزپارٹی کے کارکن و ووٹرزمایوس تھے ، ویسے تو2018کے الیکشن سے قبل ہی تحریک انصاف کی جیت کے لیے خفیہ ہاتھ کام کررہاتھا مگر25جولائی کی رات جوواردات کی گئی اس میں بھی بات نہ بنی توجہانگیرترین میدان میں اترے انہوں نے کھرے کھوٹے کی پہنچان کیے بغیرلوٹ سیل لگادی اپنے جہازکورکشہ بنادیاممبران قومی و صوبائی اسمبلی کو بنی گالہ میں مشرف باعمران کرواکرعمرانی راج کی راہ ہموارکی ، تبدیلی کی ہوائیں ہی نہیں جھکڑچل رہے تھے جیت کانشہ ایساتھا کہ خان صاحب ہوائوں میں اڑرہے تھے ، مگرمولانا ان سب باتوں سے بے پرواہ ہوکرپی ٹی آئی کی حکومت کوپوری جرات سے للکارااورمیدان میں نکل پڑے ۔ یارلوگوں نے طعنہ دیاکہ اقتدارسے نکلنے کے بعدمولاناکادماغ مائوف ہوگیاہے یہ اقتدارکے بغیرزندہ رہے ہی نہیں سکتامگرمولانانے ان سب باتوں کی پرواہ کیے بغیراپنے کارکنوں سے رابطہ کیاایک طرف تبدیلی کاغلفلہ تھاتو دوسری طرف مولاناکافلسفہ تھا ۔شکست نے مولاناکومشتعل نہیں کیااورنہ صبرکادامن ہاتھ سے چھوڑا۔وقت وحالات نے ثابت کیاکہ مولانانے اسمبلیوں سے مستعفی ہونے اورحکومت مخالف تحریک کاجومشورہ دیاتھا وہ درست تھا مگرپلوں کے نیچے سے بہت سا پانی بہہ چکاتھا بعدکے واقعات سے یہ نتیجہ اخذہواکہ اپوزیشن رہنمائوں کی سیاست فیل ہوگئی ہے اب مولاناکی سیاست چلے گی ۔پھرایک وقت آیاکہ مولانااپوزیشن تحریک کے سرخیل بن گئے ۔ مولاناکی سیاسی زندگی کاایک نیادورشروع ہواملک کے نامورسیاستدانوں اورجمعیت علماء اسلام سے کئی گنابڑی جماعتوں نے مولاناکی جرات ،بہادری ،استقامت،دوراندیشی اوربصیرت کودیکھتے ہوئے انہیں اپناامام بنالیا۔اپوزیشن جماعتیں مولاناکے پیچھے ہاتھ باندھ کرکھڑی ہوگئیں اگرچہ اس تحریک میں کئی اتارچڑھائوآئے ۔اہم موقع پرپاکستان پیپلزپارٹی ساتھ چھوڑگئی سینٹ میں اپوزیشن سے ہاتھ ہوا۔عدالتوں سے بھی حوالہ افزاء خبریں نہ ملیں۔مولانابھرپورلانگ مارچ لے کر اسلام آبادپہنچے مگرپیپلزپارٹی اورن لیگ نے ان کاساتھ نہیں دیااسلام آباددھرنے میں چوہدری پرویزالہی نے دھوکہ دیامگر70سالہ یہ بوڑھاشیرکبھی بھی مایوس اوردلبرداشتہ نہیں ہوا ۔ وہ تنکاتنکاجوڑکرآشیانہ بناتارہا ،تنی ہوئے رسے پرچل کراپوزیشن جماعتوں کواکٹھاکرتارہا، دوسری طرف حکومت نے مولاناکوقابوکرنے کے لیے متعددمنصوبے بنائے،گھناونے ہتھکنڈے ازمائے ،نیب کی فاعلیں کھولی گئی ،ایف آئی کومتحرک کیاگیا اینٹی کرپشن والوں کوٹاسک دیاگیاخفیہ اداروں سے ریکارڈ منگوایاگیا مگریہاں سے کچھ ہاتھ نہ آیاتومولاناکے دوستوں پرجھوتے مقدمات بنائے گئے انہیں ہراساں کیاگیا کچھ رہنمائوں کوگرفتاربھی کیاگیا مولاناکی طاقت مسجدومدرسہ سے چھیڑخانی کی گئی مدارس کی طاقت کوتقسیم کیاگیا مگرمولاناقابونہ آئے ۔ ایک وقت ایسا بھی آیاکہ عمران نیازی نے اعلی سطحی اجلاس میں کہاکہ مولانافضل الرحمن اسمبلی سے باہرمیرے لیے زیادہ خطرناک ثابت ہورہاہے حکومت نے مولاناکورام کرنے کی بھی کوششیں کیں ،حکومتی زعماء نے مولاناسے ڈیل کرنے کے لیے ہاتھ بھی آگے بڑھایا ،اس حوالے سے مقتدراداروں کی خدمات بھی حاصل کی گئیں مگرمولانانے کہاکہ جعلی طریقے اورجعلی مینڈیٹ سے بنائی گئی حکومت سے ہاتھ ملانا جائز نہیں۔ یہاں سے مایوس ہونے کے بعدحکومت نے مولاناکی جماعت پرڈرون حملہ کیا۔مولاناکی جماعت میں شامل بزرگ رہنمائوں کوورغلایاگیاانہیں سنہرے خواب دکھائے گئے مولاناکی جماعت کے مقابلے میں بیساکھیوں کے سہارے نئی جماعت کھڑی کرنے کی کوشش کی گئی مولانایہاں بھی نظررکھے ہوئے تھے ایک ہی وارسے حکومت کے تمام حربے ناکام بنادئیے ۔یہاں سے ناکام ہونے کے بعد حکومت نے روایتی درباری ملائوں کوتلاش کیامگرایک آدھ کے علاوہ یہاں بھی کامیابی حاصل نہیں ہوئی عمران نیازی نے ریاست مدینہ کانعرہ لگایاتو مولاناطارق جمیل جیساداعی بھی دھوکہ کھاگیامگریہ حربہ بھی زیادہ نہ چل اس سب کے باوجود حکومت کے خلاف مولاناکی تحریک چلتی رہی مولانانے تمام بڑے شہروں میں لاکھوں افرادپرمشتمل ملین مارچ کیے مگرمیڈیانے کم ظرفی سے کام لیایاحکومتی دبائوتھا کہ انہیں کوریج نہیں دی ۔تمام حربے استعمال کرنے کے بعدحکومت نے مولاناکامیڈیاٹرائل شروع کیازہریلاپروپیگنڈہ کیاگیا جھوٹی پوسٹیں اورمولاناکے انٹرویوزکی ویڈیوزکاٹ پیٹ کرسوشل میڈیاپرپھیلائی گئیں،مولانااوران کی شخصیت پر ھونڈے الزام لگائے گالم گلوچ بریگیڈ میدان میں اتاری گئی اورآخرمیں عمران نیازی خودمیدان میں اترے انہوں نے کھلے عام مولاناکوبرے القابات سے پکارناشروع کیاتضحیک آمیز جملے کسے وزارت عظمی کے منصب کابھی خیال نہیں رکھا شہبازگل جیسے مسخرے ،فیاض چوہان اورفیصل ووڈاجیسے پھانڈ سامنے آئے، ترجمانوں کوٹاسک دیاگیاکہ وہ مولاناکے خلاف منفی مہم میں بڑھ چڑھ کرحصہ لیں،نام نہادیوٹیوبرزاکٹھے کیے گئے انہیں سرکاری خزانے سے کروڑوں روپے کے فنڈزدیئے گئے ۔مگراس سب کے باوجود مولانااپناکام کرچکے تھے ۔ آج ایک زرادری سب پربھاری کی سیاست اپنی جگہ ،میاں شہبازشریف کی جوڑتوڑکی مہارت اپنی جگہ ،مگرجس کڑے وقت میں مولانانے میدان میں نکل کر عوام کومتحرک کیااپنے کارکنوں کی قربانیاں دیں ،حکومت ،انتظامیہ اورموسمی سختیاں برداشت کیں ،تنقیدکے تیرسہے ،مقدمات کاسامناکیااپنوں کی بے وفائیوں کوبرداشت کیامگرکارکنوں کوپرامن رکھا کسی موقع پربھی تحریک کارخ کسی اورطرف نہیں مڑنے دیا،اپوزیشن کے باہمی اختلافات کوخندہ پیشانی سے برداشت کیا۔واقعی یہ مولاناکاہی کمال تھا اورآج اگرسومنات کابت گراہے ،نیازی اقتدارسے رخصت ہواہے توسب کومانناپڑے گاکہ اس تحریک کاسرخیل واقعی مولانافضل الرحمن تھا ۔ مولانانے ایک موقع پر اگرچہ یہ جملہ ہنستے ہوئے کہاتھا کہ ہماری بغیرکوئی حکومت بن نہیں سکتی اوراگربن جائے توپھرچل نہیں سکتی اس کو سچ ثابت کردکھایا۔حکومت مخالف تحریک میں مولانانے ،،نکے داابا،،سے لے کر،،خزاں جائے، بہارآئے کہ نہ آئے،، سمیت متعددایسے جملے بولے جوہماری سیاسی تاریخ کاحصہ بن گئے ،اورزبان زدعام ہیں مولاناکی یہ جدوجہد ایک سیاسی کارکن کے لیے کتاب کادرجہ رکھتی ہے سیاسی کارکنوں کواس تمام ترتحریک کاجائزہ لیناچاہیے اوردیکھناچاہیے کہ جب بڑے بڑے سیاستدان مایوس تھے اورناکامی پرگھروں میں جاکربیٹھ گئے تھے توکس طرح ایک مدرسے کے مولوی نے کایاپلٹی اورمیدان میں نکل کرحکمرانوں کوللکارا اورآخروقت تک میدان میں کھڑارہابلکہ اس تحریک کی قیادت کرتارہا۔مولاناکایہ سنہری کردارصدیوں یادرکھاجائے گا ۔  

Post a Comment

Previous Post Next Post